Ticker

10/recent/ticker-posts

20 famous poems of Mirza Ghalib's Lines

غالب

 مرزا اسد اللہ خان غالب

 میرزا غالب کے مشہور ۲۰ اشعار

اردو کے عظیم شاعر

اردو کے استاد

اردو کی تاریخ میں ایک اہم شخصیت

اردو شاعری کا ایک بڑا نام

اردو شاعری کا ایک روشن ستارہ

میرزا غالب اردو ادب کے سب سے عظیم شاعروں میں سے ایک ہیں۔ وہ 1797 میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے اور 1869 میں ان کا انتقال ہوا۔ غالب نے 234 غزلیں، 376 غزلے، 1024 قصائد، 45 تصویر نظمیں، 82 آڈیو، 297 ویڈیوز اور 1024 ای-کتابیں لکھی ہیں۔

غالب کی شاعری کو اس کی گہرائی، پیچیدگی اور خوبصورتی کے لیے جانا جاتا ہے۔ ان کی نظمیں اکثر عشق، زندگی، موت اور کائنات کی فطرت جیسی گہری تصورات کو مخاطب کرتی ہیں۔ غالب کی شاعری میں اکثر طنز، ظرافت اور خود طنز بھی ہوتا ہے۔

غالب کی شاعری کو دنیا بھر میں متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ ان کی نظمیں بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں مقبول ہیں۔

یہاں غالب کی ایک مشہور غزل ہے:

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے میرے ارمان مگر پھر بھی کم نکلے

میرزا غالب کے مشہور ۲۰ اشعار

بے قبول ہے جو منظور-ا-خدا نہ ہو

قدرت کے خلاف 'غالب' کچھ بھی نہ ہو

اس غزل میں، غالب اپنے دل کی خواہشوں اور آرزوؤں کے بارے میں لکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی خواہشیں اتنی بڑی ہیں کہ وہ کبھی پوری نہیں ہو سکتیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی خواہشوں کے لیے خدا کی اجازت ضروری ہے۔


یہاں غالب کا ایک مشہور شعر ہے:


نظر-ا-خود-پردہ-دار کرنے کی ضرورت کیا ہے

ذرا اِدھر بھی دیکھو، یہ زمانہ بھی دیوانہ ہے


اس شعر میں، غالب کہتے ہیں کہ دنیا ہی پاگل ہے، اس لیے کسی کو خود کو چھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا کے پاگلپن کو دیکھنے کے لیے ہمیں صرف ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔


غالب کی شاعری آج بھی اتنی ہی مقبول ہے جتنی کہ ان کی زندگی میں تھی۔ ان کی نظمیں ہمیں زندگی، عشق اور کائنات کی فطرت کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ وہ ہمیں اپنے دلوں کو کھولنے اور دنیا کی خوبصورتی اور تنوع سے لطف اندوز ہونے کے لیے ترغیب دیتے ہیں۔


میرزا غالب کے مشہور اشعار میں سے ۲۰ اشعار یہ ہیں:

حُسن کی تعریف میں:

"کوئی ہستی نہیں ہے کہ اس کا نہ ہو کوئی نقصان،

لیکن غالب کو تو یہ بھی ہوا کہ اس کا حسن تھا۔"


"حسن میں نقص تھا تو کیا ہوا،

وہ حسن تھا کہ حسن تھا۔"


"حسن کو ہر کسی سے نہیں ملتا،

جو ملتا ہے وہ کسی سے نہیں ملتا۔"


عشق میں:

"دل کے دکھ کا کوئی علاج نہیں،

پھر بھی دل کو دکھ دینے میں مزہ ہے۔"


"عشق کی آگ میں جلنا تو معمول ہے،

لیکن عشق میں جل کر بھی نہ جلنا عجیب ہے۔"


"عشق کے لیے تو ہر چیز قربان کرنی چاہیے،

لیکن عشق کے لیے خود کو قربان کرنا سب سے بڑی قربانی ہے۔"


زندگی میں:

"زندگی ایک خواب ہے،

اور خواب بھی ایک خواب ہے۔"


"زندگی ایک کھیل ہے،

اور کھیل بھی ایک کھیل ہے۔"


"زندگی ایک سفر ہے،

اور سفر بھی ایک سفر ہے۔"


موجودہ زمانے کے بارے میں:

"یہ زمانہ بھی دیوانہ ہے،

اور ہم بھی دیوانے ہیں۔"


"یہ زمانہ بھی ظالم ہے،

اور ہم بھی مظلوم ہیں۔"


"یہ زمانہ بھی بے رحم ہے،

اور ہم بھی بے رحم ہیں۔"


خود پر طنز میں:

"میرے پاس کوئی خوبی نہیں،

لیکن مجھے ہر خوبی کا شوق ہے۔"

"مجھے شاعری آتی نہیں،

لیکن میں شاعر بننا چاہتا ہوں۔"

"مجھے دنیا نہیں آتی،

لیکن میں دنیا میں رہنا چاہتا ہوں۔"


مجموعی طور پر، غالب کی شاعری میں زندگی، عشق، اور کائنات کی فطرت کے بارے میں گہرے خیالات ہیں۔ ان کی شاعری میں ہمیں زندگی کے معنی اور مقصد کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔

میرزا غالب کی 5 مشہور غزلیں


"ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے"

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے میرے ارمغان مگر فیر بھی کم نکلے

بے قبول ہے جو منظور-ا-خدا نہ ہو

قدرت کے خلاف 'غالب' کچھ بھی نہ ہو

اس غزل میں، غالب اپنی دل کی خواہشوں اور آرزوؤں کے بارے میں لکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی خواہشیں اتنی بڑی ہیں کہ وہ کبھی پوری نہیں ہو سکتیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی خواہشوں کے لیے خدا کی اجازت ضروری ہے۔

ترجمہ:

ہزاروں ایسی خواہشیں ہیں کہ ہر خواہش پر دم نکلے جائے

میرے ارمان بہت نکلے ہیں، لیکن وہ ابھی بھی کم ہیں

جو خدا کی مرضی کے خلاف ہو وہ قبول نہیں ہے

'غالب' کے خلاف کچھ بھی ممکن نہیں ہے

"نہ نظر-ا-خود-پردہ-دار کرنے کی ضرورت کیا ہے"

نظر-ا-خود-پردہ-دار کرنے کی ضرورت کیا ہے

ذرا اِدھر بھی دیکھو، یہ زمانہ بھی دیوانہ ہے

اس غزل میں، غالب کہتے ہیں کہ دنیا ہی پاگل ہے، اس لیے کسی کو خود کو چھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا کی پاگلپن کو دیکھنے کے لیے ہمیں صرف ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔

ترجمہ:

خود کو چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے

ذرا یہاں بھی دیکھو، یہ زمانہ بھی پاگل ہے

"دل کے دکھ کا کوئی علاج نہیں"

دل کے دکھ کا کوئی علاج نہیں

پھر بھی دل کو دکھ دینے میں مزہ ہے

اس غزل میں، غالب کہتے ہیں کہ دل کے دکھ کا کوئی علاج نہیں ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دل کو دکھ دینے میں ایک عجیب سا مزہ ہے۔

ترجمہ:

دل کے دکھ کا کوئی علاج نہیں ہے

لیکن دل کو دکھ دینے میں بھی مزہ ہے

"حسن میں نقص تھا تو کیا ہوا"

حسن میں نقص تھا تو کیا ہوا

وہ حسن تھا کہ حسن تھا

اس غزل میں، غالب کہتے ہیں کہ حسن میں نقص ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ وہ کہتے ہیں کہ حسن کا حسن ہی کافی ہے۔

ترجمہ:

حسن میں نقص ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے

وہ حسن ہی حسن تھا

"آج کی رات کا مجھے خواب آیا"

آج کی رات کا مجھے خواب آیا

کہ میں پھر سے تیرے پیار میں گیا

اس غزل میں، غالب کہتے ہیں کہ انہیں ایک خواب آیا کہ وہ اپنے محبوب سے دوبارہ پیار کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ خواب سے بیدار ہوئے اور وہ اپنی محبوب کے بازوؤں میں واپس جانا چاہتے ہیں۔

ترجمہ:

آج کی رات کا مجھے خواب آیا

کہ میں پھر سے تیرے پیار میں گیا

Post a Comment

0 Comments