غالب کی پانچ مشہور غزلیات
مرزا غالب اردو کے عظیم شاعروں میں سے ایک ہیں، جن کی غزلیں دنیا بھر میں پڑھی جاتی ہیں۔
ان کی غزلیات میں عشق، نفرت، غم، خوشی، امید، ناامیدی، جیون اور موت جیسے موضوعات کو خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔
غزل 1
نہ تری زلفوں سے ہے، نہ تری آنکھوں سے ہے
میری زندگی کا غم، تیری محبت سے ہے
دل کو سمجھانے کو میں نے کہا ہے
اے دل، یہ غم تو ترے ہمدم سے ہے
اے نگاہ، یہ عجب ہے تیری مہربانی
کہ تیری نگاہ سے ہے، میری نگاہ سے ہے
مجھ کو ہمیشہ یہی خیال آتا ہے
کہ میری منزلیں ہیں، تیری منزل سے ہے
میرے غم کو جانے کی کوشش نہ کر
کہ یہ غم تو تیری محبت سے ہے
غزل 2دل غم امید،
نہ رہا دل میں غم، نہ رہی امید، نہ رہی
اے درد، اب تو ٹھہر، اے ہمدم، اب تو ٹھہر
کچھ دیر کے لیے تو چپ رہ، اے میرا غم
کہ میں بھی کچھ سنبھلوں، اے میرا غم
اے نگاہ، اب تو ٹھہر، اے ہمدم، اب تو ٹھہر
کہ میں بھی کچھ دیکھ لوں، اے ہمدم، اب تو ٹھہر
کچھ دیر کے لیے تو چپ رہ، اے میرا درد
کہ میں بھی کچھ کہوں، اے میرا درد
کچھ دیر کے لیے تو چپ رہ، اے میری امید
کہ میں بھی کچھ سوچوں، اے میری امید
کچھ دیر کے لیے تو چپ رہ، اے میرا غم
کہ میں بھی کچھ سنبھلوں، اے میرا غم
غزل 3
میری نگاہوں میں وہی ہے جو تمہاری ہے
میرے دل میں وہی ہے جو تمہارے دل میں ہے
میری زبان پر وہی ہے جو تمہاری زبان پر ہے
میرے قدموں میں وہی ہے جو تمہارے قدموں میں ہے
میرے ہاتھوں میں وہی ہے جو تمہارے ہاتھوں میں ہے
میری آنکھوں میں وہی ہے جو تمہاری آنکھوں میں ہے
میرے دل میں وہی ہے جو تمہارے دل میں ہے
میری نگاہوں میں وہی ہے جو تمہاری نگاہوں میں ہے`
غزل
میرا دل ہے تو کیا، تیرا دل تو نہیں ہے
میری آنکھیں ہیں تو کیا، تیری آنکھیں تو نہیں ہیں
میرا دل ہے تو کیا، تیرا دل تو نہیں ہے
میری آنکھیں ہیں تو کیا، تیری آنکھیں تو نہیں ہیں
میرا دل ہے تو کیا، تیرا دل تو نہیں ہے
میری آنکھیں ہیں تو کیا، تیری آنکھیں تو نہیں ہیں
میرا دل ہے تو کیا، تیرا دل تو نہیں ہے
میری آنکھیں ہیں تو کیا، تیری آنکھیں تو نہیں ہیں
```
یہ غزلیں غالب کی شاعری کا ایک چھوٹا سا سا نمونے ہیں، لیکن ان میں ان کی شاعری کی خوبصورتی اور گہرائی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
0 Comments